محبت میں وفا ہی تو مانگی تھی
میرا دل جان دینے پے تیار نکلا
یہ کیسا ہجر ہے وہ سمندر کی طرح خاموش
اور میں لہروں کی طرح بقیرار نکلا
یہ وقت کی سازش کہا لے آئی مجھے لکی
مٹی ہیں وجود میرا مگر غم پہاڑ سے بھاری نکلا
یہ مسافتیں ۔ یہ دوریاں کس طرح طے ہو گیی
میں نے قدم ہی بڑھیا تھا اور پروں تلے جہاں نکلا
سجدے میں گرا تو فقط معافی کے کچھ یاد ہی نا رہا
مگر جب بھی ہاتھ ُاٹھایا لبوں فقط ُاسی بے وفا کا نام نکلا