محبت نہ اتنی پاس ہوتی تو دل کو آس ہوتی
طولانی جب مسافت ہوتی تبھی تو پیاس ہوتی
زندگی کا سنا کر قصہ عشق مجھ کو بیمار کر دیا
ایسی بھی کیا مجبوری کیاری میں اب گھاس ہوتی
چلو چھوڑو پرانی کہانی کو دیتے ہیں نیا عنوان
پہننے کو جو رہ گئی لنگی کہنے کو کبھی لباس ہوتی
اپنی قسمت ہی کو روتا زمانہ تو قصور وار ہوا
ایسی غلطی کا ہوتا خمیازہ عسرتِ افلاس ہوتی
رہتا ہمیشہ زیر بار ہی اب تو کرایہ دار بھی تو
محبت بھی کاش کھیل کی طرح جیت کی ٹاس ہوتی