محبت نہ تھی تو نفرت کی ہوتی
یوں نہ مگر ہم سے فرقت کی ہوتی
ہم تو اب بھی نازاں ہیں محبت پر
مر جاتے گر ندامت کی ہوتی
صبرِ طویل لکھا قلب و جگر میں
کاش تم نے اِسکی عزت کی ہوتی
بے زبانی چھوڑ دیتے ٗ کچھ تو کہتے
کچھ تو کہنے کی زحمت کی ہوتی
اب آ ہی گئے ہو تو شکوہ کیسا
بس ذرا پہلے یہ فرصت کی ہوتی