محبت پہ اعتبار نہیں ہوتا
کبھی ایسا پیار نہیں ہوتا
عشق کی انتہا مت پوچھو
حسن کبھی معیار نہیں ہوتا
مجبور ہو جاتا ہے انسان اکثر
جدائی میں کوئی بے اعتبار نہیں ہوتا
چھلنی ہوجاتے ہیں قدم اکثر
یہاں کون سا راستہ ہے جو پرخار نہیں ہوتا
پوشیدہ ہے غرض اس میںب بھی شیری
یونہی تو کبھی پیار نہیں ہوتا