محبت کا اُفق مہکا رہا ہے
تکلف کا مگر رشتہ رہا ہے
خدا جانے خزاں کب تک رہے گی
قفس ویران ہوتا جا رہا ہے
غرض بیل میں دیکھا پنپنا
مگر ایثار اب مرجھا رہا ہے
مرے لہجے کی شبنم کے اثر سے
کڑکتی دھوپ میں سایہ رہا ہے
جو کہنا تھا نہیں کہتا میں اُن سے
مری آنکھوں میں جھانکا جا رہا ہے
بصارت کو بصیرت کہنے والا
کھلی آنکھوں سے دھوکا کھا رہا ہے
امین آنکھیں مری حیرت زدہ ہیں
مرا ہر خواب کیوں دھندلا رہا ہے