ًمحبت کی آخری منزل
میں اکثر سوچتا ہوں
سوچ کر حیران ہوتا ہوں
کہ میرے اور تمہارے درمیاں کیسا
انوکھا، ان سُنا بے نام ناتا ہے
کہ میری اور تمہاری ذات میں حائل
عمر،ذات و قبیلہ کی بہت گہری کٹھن،مشکل خلائیں ہیں
بڑے طوفان برپا ہیں،بڑی سرکش ہوائیں ہیں
بظاہر زندگی میں کوئی جزباتی کمی تک بھی نہی پھر بھی
نجانے کس لیے دل میں
سلگتی تلملاتی بے کلی محسُوس ہوتی ہے
تمہارا بے خیالی میں
کسی مانوس، نا مانوس چہرے کی طرف تکنا
کسی سے بات کرنا، مسکرانا
کیوں مُجھے اچھا نہیں لگتا!
میں اکثر سوچتا ہوں
سوچ کر حیران ہوں
تمہیں اپنا بنانے،اپنا کہنے،ساتھ رکھنے کا
کوئی دعوٰی، کوئی حق بھی نہیں پھر بھی
نہ جانے کس لیے جاناں
تمہارے دور جانے کا
کسی کا گھر بسانے کا
تصور دل میں آتا ہے
تو جسم و جان کی یہ آہنی،نا قابل تسخیر دیواریں
رُو پہلی، جھلملاتی ریت کے کچے گھروندوں کی طرح سے
ٹُوٹتی محسُوس ہوتی ہیں
یکایک پھر دل ناکام کے ویران اور گمنام گوشوں سے
کرب میں دُوبتی، دم توڑتی آواز آتی ہے
ارے ناداں
ذرا سمجھو
اسی کا نام الفت ہے
یہی سچی محبت ہے
میں جب یہ سوچتا ہوں ،سوچ کر تسکین ہوتی
یہ میرے اور تمہارے درمیاں
جو منفرد،انمول ناتا ہے
کسی نایاب چاہت سے
کسی بے تاب الفت سے
کہیں آگے،بہت آگے کی منزل ہے