شبِ تنہائی کی ریشم قبا آغوش میں لے لے
گئے موسم کی اے یادِ وفا آغوش میں لے لے
صدف جیسے چھپا کر گہر کو سینے میں رکھتی ہے
مجھے ایسے محبت کی ادا آغوش میں لے لے
برسنے کو میرا بھی چاہتا ہے دل گھٹا بن کر
ذرا مجھ کو بھی بادل کی رِدا آغوش میں لے لے
میرے اندر اُمڈ آیا ہے طوفاں خیز سا عالم
سفینہ دل کا میرا نا خدا آغوش میں لے لے
ہوائے تُند خُو شمعِ فروزاں کو ڈراتی ہے
کسی مخلص کی اے سچی دعا آغوش میں لے لے