کس جرم کی پائی ہے سزا یاد ہے
محبت کی کی تھی خطا یاد ہے
کسی دن ملو تو بتائیں تمھیں
کیا بھول گئے اور کیا یاد ہے
تم کسی اور کو اپنا لو مگر
مجھے اپنا عہد وفا یاد ہے
تم ہوئے تھے خفا کس کس بات پر
اور منایا تھا کتنی دفعہ یاد ہے
آئنے میں بھی چہرہ تمھارا دکھے
اب نہ چہرہ کوئی دوسرا یاد ہے
جہاں ملی تھی نظر تم سے پہلی دفعہ
وہ شہر وہ گلی وہ جگہ یاد ہے
گو کہ بچھڑے ہوئے اک زمانہ ہوا
مگر آپ کی ہر ادا یاد ہے
جھیل سی تیری آنکھیں تصور میں ہیں
اور زلفوں کی کالی گھٹا یاد ہے
مجھے یاد ہیں اپنی باتیں سبھی
تم بتائو تمہیں کچھ بھلا یاد ہے