محبت کی گہری نیند میں اِک خواب دیکھا میں نے
میں تجھ سے جدا ، خود پہ عذاب دیکھا میں نے
فصلِ گُل کا ذکر ہے اِک وسیع گلستان تھا
ہوائیں اُداس پھرتی تھیں ہر پھول پریشان تھا
شدتِ درد میں روتا ہوا اِک گلاب دیکھا میں نے
محبت کی گہری نیند میں اِک خواب دیکھا میں نے
پھر یوں دیکھتا ہوں گلشن ہے آروں کی لپیٹ میں
اِک بے سہارا مر رہا تھا سہاروں کی لپیٹ میں
ٹھوکتا خون ہر شجر بری حالتِ خراب دیکھا میں نے
محبت کی گہری نیند میں اِک خواب دیکھا میں نے
وہ خواب ساری عمر کی نیندوں کے دھاگے توڑ گیا
نہالؔ ہر رات تاروں سنگ جاگتا مجھ کو چھوڑ گیا
اِک شاعر کچھ لکھ رہا حالتِ بے تاب دیکھا میں نے
محبت کی گہری نیند میں اِک خواب دیکھا میں نے