محبت دل میں پیدا کر لیا کیا
کسی کا درد اپنا کر لیا کیا
مری قیمت گھٹاتے جا رہے ہو
کسی سے دل کا سودا کر لیا کیا
جھکا ہے آجکل کیوں سر تمہارا
کسی کے در پہ سجدہ کر لیا کیا
تیری آنکھوں میں ہے دیدار حسرت
کسی نے تجھ سے پردہ کر لیا کیا
بناتے ہو تماشہ دوسروں کو
کبھی خود کو تماشہ کر لیا کیا
ستم مظلوم پر ڈھانے لگے ہو
کسی ظالم سے رشتہ کر لیا کیا
اتر کر وشمہ دل کے آئینوں میں
سبھی کے دل پر قبضہ کر لیا کیا