محبت جس شخص سے کر بیٹھا ہوں
اداٶں پہ جس کی مر بیٹھا ہوں
معصوم چہرے،پاکیزہ نظروں کا حاشیہ ہے
حسن پہ لکھی حسین غزلوں کا قافیہ ہے
وہ جو سب سے عجیب تر ہے
وہ جو خود سے حسین تر ہے
وہ جو خود ہی میں رہنے والا
نہ کچھ کسی سے کہنے والا
جھجھک کے آنچل,حیا کے پلوں سے لپٹا
دل میں میرے جو جی رہا ہے
بھلا کے اپنے چا ہنے والے کو
بڑی تسلی سے پی رہا ہے
میں جو اس پہ مرنے والا
نہ کسی سے ڈرنے والا
بہا کے آنسو عتاب عبرت
ہجر کی راتوں میں جلنے والا
کیا سدا ہی چپ رہوں گا؟
اسی ندھیرے میں گم رہو گا؟
ہجر کی راتوں کے بعد آخر
وصل کی راتوں کا نور ہوگا
وہ جو اب بچ رہا ہے مجھ سے
یہاں پہ اک دن ضرور ہوگا
دکھ کے بادل چھٹ ہی جاۓ گے
اس تسلی پہ جی رہا ہوں
اس کی گلی میں جو پٹا تھا
اسی گریباں کو سی رہا ہوں