مختلف شعراء ۔ حصہ دوم
Poet: By: Bakhtiar Nasir, Lahoreآج بھی جس کی محبت کی مہک زندہ ہے
جان کس حال میں وہ ہو گا کہاں رہتا ہے
( شیریں غزالہ)
یہ خامشی تو رگ و پے میں رچ گئ ناصر
وہ نالہ کرکہ رگ سنگ سے صدا نکلے
( ناصر کاظمی)
میری روح کی حقیقت میرے آنسوؤں سے پوچھو
یہ مجلسی تبسم میرا ترجماںنہیں ہے
( مصطفے زیدی)
کھلا نہ ایک بھی گل شاخ آرزو پہ میری
بہار آئ بھی لیکن کسی خزاں کی طرح
( سمیع جمال)
دل کا ہر زخم آج بھی نم ہے
آپ کہتے ہیں وقت مرہم ہے
( صفدر صدیق رضی)
تیری ہی جستجو میںشام و سحر پھرا کئے
تیرے ہی انتظار میں صدیاں سما کے رہ گئیں
( انعام الرحمان)
اس قدر ہوں ریزہ ریزہ اب تواپنی ذات میں
اپنے ٹکڑے ہی مجھے مشکل اٹھانے ہو گئے
( ارشد جاوید)
دل کا آنگن کسی آسیب کا مسکن ہی نہ ہو
جو بھی آتا ہے مسافر وہ ٹہرتا ہی نہیں
( مقبول رانا)
خوشی کی دھوپ نے سنولا دیا تھا رنگ اسکا
اداس ہوکے وہ کتنا نکھر گیا ہوگا
( شیریں عنبر)
میں وہاں کا باسی ہوں جس زمیں پر اکثر
حادثے تو ہوتے ہیں معجزے نہیں ہوتے
( زاہد فخری)
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






