ہوئے مدہوش دیکھ کے تجھے شراب سے پہلے
دیکھا ہے ایک خواب ہم نے خواب سے پہلے
دے دیجئے مجھے بھی جواب میرے سلام کا
نہ جائیں گزر کہیں ہم تیرے جواب سے پہلے
آئی ہے کتنی بہاریں ہماری جوانی میں
نہ لوٹ جائیں کہیں ہمارے شباب سے پہلے
پہنچ جانا چاہیئے ہمیں اپنی منزل پر شام تک
رہ نہ جائیں پیچھے کہیں جناب سے پہلے
ہیں کود پڑے ہم عشق کے دریا میں شاکر
بہ نہ جائیں اب کہیں ہم آب سے پہلے