مرا ہی یار مجھے بد نصیب لگ رہا تھا
زمانہ سارا ہی اس کا رقیب لگ رہا تھا
میں اس لیے ہی گیا ہار مقدمہ اپنا
مرا برا ہی مجھےتو نصیب لگ رہا تھا
ملا کئی دنوں کے بعد اس لیے ہی وہ
ذرا سا شکل سے ہٹ کے عجیب لگ رہا تھا
لباس پہنا ہوا تھا عجیب سا اس نے
وہ کوئی اب مجھے شاعر ادیب لگ رہا تھا
بدل دیا ہے زمانے کے نہج نے اس کو
مرا تو آج وہ دشمن حبیب لگ رہا تھا
پرانی بھول چکا تھا عداوتیں سب وہ
مرے تو آج وہ دل کے قریب لگ رہا تھا
کبھی وہ شخص بہت ہی امیر تھا شہزاد
جو دیکھنے میں تو بہت اب غریب لگ رہا تھا