ہجومِ شوق میں خود سے جدا کرے نہ کرے
یہ اس کی مرضی ہے مجھ کو رہا کرے نہ کرے
مریضِ عشق کسی طور بچ نہ پائے گا
مریضِ عشق کی خاطر دعا کرے نہ کرے
مجھے تو رکھنا پڑے گا رفاقتوں کا بھرم
وہ میرا دوست ہے چاہے وفا کرے نہ کرے
میں سوگوار رہوں گی کسی کی فرقت میں
محبتوں کا کوئی حق ادا کرے نہ کرے
شکست کھا کے بھی رہتی ہوں مطمئن اکثر
کوئی بھی جشنِ طرب وہ بپا کرے نہ کرے
میں پھنس گئی ہوں تلاطم کی تیز لہروں میں
میں کیا کروں کہ مدد ناخدا کرے نہ کرے