مریض محبت انہی کا فسانہ
سناتا رہا دم نکلتے نکلتے
مگر زکر شام الم جب بھی آیا
چراغ سحر بجھ گیا جلتے جلتے
انہیں خط میں لکھا تھا دل مضطرب ہے
جواب ان کا آیا محبت نہ کرتے
تمہیں دل لگانے کو کس نے کہا تھا
بہل جائے گا دل بہلتے بہلتے
وہ مہمان رہے بھی تو کب تک ہمارے
ہوئی شمع گل اور ڈوبے ستارے
قمر اس قدر ان کو جلدی تھی گھر کی
وہ گھر چل دیئے چاندنی ڈھلتے دھلتے