مری آنکھوں کی حیرانی نہ پوچھو
محبت میں پریشانی نہ پوچھو
جو کم عمری میں اس سے ہو گئی ہے
مرے دل سے وہ نادانی نہ پوچھو
یہ حد ہے دشمنی کی کہہ رہا تھا
تڑپتی ہے تو پھر پانی نہ پوچھو
مجھے ہر گام پر اس نے ڈبویا
مرے اس دل کی من مانی نہ پو چھو
تمہار ے پیار میں میرے مسیحا
جو ہم نے دی ہے قربانی نہ پوچھو
بہت آزاد دل تھا بانکپن میں
گر دل کی ہے نگہبانی نہ پوچھو
سفیدی خون کی بتلا رہی ہے
یہاں رشتوں کی ارزانی نہ پوچھو
یہ دل گر سلطنت ہے تو مری جاں
ہے اس پہ کس کی سلطانی نہ پوچھو
نہ بھاگو روز و شب پیچھے اس کے
یہ دنیا تو ہے بس فانی نہ پوچھو
میں اپنا خود تعارف ہوں جہاں میں
کہیں سلمیٰ کہیں رانی نہ پوچھو