مری ہی پشت سے آیا ہے وار میری طرف
کھڑے ہوئے تھے سبھی دوست یار میری طرف
ہوائیں کھا گئیں ہیں طاقچوں میں رکھے دیے
بڑھا ہے آندھیوں کا اب حصار میری طرف
حضورِ یار میں نم جب فصیلِ چشم ہوئی
بڑھا وہ بن کے مرا غم گسار میری طرف
ہے گردِ کوچہ اگر اصل زر فقیروں کا
تو کیوں ہے آیا غمِ روزگار میری طرف
دیارِ گل میں لیا کام جب جنوں سے احد
کمانِ شاخ سے بڑھ آئے خار میری طرف