مرے دل کے آنگن سے ماتم کی صدائیں آتی ہیں
روتی ہوئی آنکھوں کے رستے مری وفائیں آتی ہیں
کیا جانو مرے کومل شریر کو کیسے جلاتی ہے
ترے شہر سے ہجر کی جب گرم ہوائیں آتی ہیں
کیسے بُھلادو میں ساون کا مہینہ جاناں!
مجھے یاد وہ برساتیں، وہ گھٹائیں آتی ہے
مانا کے جدائی میں مرا قصور ہے زیادہ مگر
کچھ ترے حصے میں بھی جاناں خطائیں آتی ہیں
یاد کی اُنگلی پکڑ کے سفرِ زندگی طہ نہیں ہوتا
نہال لبوں پے نزع کی بارہا دعائیں آتی ہیں