خیال یار سے یوں ، سلسلہ بحال کیا
نماز وجد پڑھی رقص اور دھمال کیا
وہ داد دینے لگا آنسووں کی تالی سے
مرے کلام نے اُس رات تو کمال کیا
نوا سے تیری نوا کو ملالیا ہم نے
تُو ہم خیال لگا ہے تو ہم خیال کیا
تمہارے عارض و کاکل کی مستیاں توبہ
زوال کی تھی وہ ساعت کہ جب“ کمال کیا ”
بڑھے تو حد سے بڑھے اسکے پیار کی مد میں
جو بھول بیٹھے تو پھر ذکر خال خال کیا
لو خود ہی پیار کی زنجیر ہم نے پہنی ہے
تمہارے پیار میں خود کو ہی یرغمال کیا
ہر ایک بات کا ان کو جواب آتا ہے
اسی وجہ سے نہ ہم نے کبھی سوال کیا
لگاکے زخم کو اپنے ہی زخم ، پر مفتی
عجیب ڈھنگ سے زخموں کا اندمال کیا