مزاج تو مان بھی لیتا امنگوں نے فاقی کردیا
میرے گرتے اشکوں نے مجھے ہی ساقی کردیا
آج ہم نے جو سنایا اک قطرے کے یکساں ہے
کچھ حال رودیئے اور کچھ درد باقی کردیا
وہ بستر کی کروٹیں سوچوں میں سج گئی
اس کی یاد نے اس طرح بھی شاکی کردیا
بدلگام سے کہدیا کہ پھر اگلا جنم جیئیں گے
اِس جیون میں تو بُرا بھلا کافی کردیا
انجان اس سحر سے کبھی گذرتے گذرتے
ہم نے خود کو بھی کتنا آفاقی کردیا
عشق کی عدول حکمی میں عدالتیں کچھ ایسی ہیں کہ
جو آنکھ لڑائے بیٹھا اسے حیات کا باغی کردیا