تھک گئی ہوں زندگی کی مسافتیں طے کرتے کرتے
منزل ہے کہ قریب آنے کا نام نہیں لیتی
منتظر ہیں اک معجزے کی آس میں آنکھیں
توقعات ہیں کہ مٹنے کا نام نہیں لیتی
محتاج نہ ہوں خدا تیرے سوا کسی کی
التجائیں ہیں کہ رُکنے کا نام نہیں لیتی
خدایا تُو شہ رگ سے بھی قریب تر ہے
سُن لے!!!
صدائیں ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لیتی
کب تلک بھٹکتی رہے “فائز“ آزمائشوں کے صحرا میں
ہمت ہے کہ بندھنے کا نام نہیں لیتی