مسکرا دیتے کبھی ہاتھ ہلا دیتے ہیں
چٹکیوں میں وہ مری بات اڑا دیتے ہیں
حسن سے حسن سلوک ان کو برا لگتا ہے
بے وفا ہونے کا الزام لگا دیتے ہیں
آزمانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ہے
اپنی اوقات کو خود لوگ بتا دیتے ہیں
کیا عداوت مرے خوابوں کو ہے جانے مجھ سے
میرے سوئے ہوئے جذبات جگا دیتے ہیں
خود بخود قوت برداشت بھی آ جاتی ہے
حادثے حادثوں میں جینا سکھا دیتے ہیں
ہیں رقیبوں میں مرے کیسے خدا داد ہنر
گیلی لکڑی میں بھی یہ آگ لگا دیتے ہیں
ایسے معصوم گناہوں کو خدا بخشے گا
میں نہیں پیتا حسن لوگ پلا دیتے ہیں