مسکرا مسکرا کے دیکھ لیا
Poet: سید ایاز مفتی By: سید ایاز مفتی, houstonوہ نہ بھولے بھلا کے دیکھ لیا
دل کو سمجھا بجھا کے دیکھ لیا
بعد اسکے خدا سے کیا مانگوں
" آپ نے مسکرا کے دیکھ لیا"
اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
تیرا گھونگھٹ اٹھا کے دیکھ لیا
آپ کو دل لگی کی عادت ہے
آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا
آہی جاتا ہے سامنے سب کے
رازِ الفت چھپا کے دیکھ لیا
آپ سانسوں سے بھی قریب رہے
آپ سے دور جا کے دیکھ لیا
غم کسی حال میں نہیں چھپتا
مسکرا مسکرا کے دیکھ لیا
کوئی مخلص نہیں زمانے میں
ہاتھ سب سے ملا کے دیکھ لیا
وقت نازک یہ ، چھوڑ جاتا ہے
سایہ بھی آزما کے دیکھ لیا
دن ہے عارض تو رات کاکل ہے
ان کے پہلو میں جاکے دیکھ لیا
اپنی دوزخ ہی اچھی لگتی ہے
ان کی جنت میں جاکے دیکھ لیا
درد سا اک اٹھا سا رہتا ہے
ان کو دل میں بٹھا کے دیکھ لیا
مجھکو جنت سے کیوں نکالا تھا
میں نے دنیا میں آکے دیکھ لیا
اس کی آنکھوں سا وہ خمار کہاں
میکدہ ہم نے جا کے دیکھ لیا
ساری دنیا سَراب ہے مفتی
ہم نے دنیا میں آکے دیکھ لیا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






