مضطرب ہےشمع بھی قرب پانےکو
رب سے اور کیا چاہیے پروانے کو
شبِ ہجر کے الم مٹنے کو ہیں
خور تیار ہے سحرِ وصل لانے کو
زمان و مکاں کہاں سکت رکھتے ہیں
دِل ہی کام آئےگاجلوہ چھپانے کو
وہ اپنی آنکھوں پے گِرا دیں جو پردہ
کون آباد کرے گا پھر میخانے کو
اتنی بھی تگ ودوکی ضرورت کیاہے
اِک چنگاری کافی ہےگھر جلانے کو
جن کی باتیں ہیں میری سانسیں
شیوہ بنا رکھا ہے مجھ کترانے کو
غمِ جاناں کو کہاں تک یاد رکھوں
غمِ دوراں ہی کافی ہےدل جلانےکو
خوابوں کا لالچ دیتےہیں آنکھوں کو
شبِ ہجر میں خود کو سلانے کو