معجزہ شام کو ایسا بھی دکھایا جائے
میرے جلوے کا دیا بام پہ لایا جائے
اتنی ندرت ہے کہ جو دیکھے وہی فخر کرے
اتنا خوش رنگ یہ آنکھوں میں سمایا جائے
اس قدر کرب کا سایہ ہے محبت کا سفر
غمِ دنیا میں تو اشکوں سے جلایا جائے
مجھ کو ڈر ہے کہ کہیں ٹوٹ نہ جائے گر کر
اپنے ہاتھوں سے اگر مجھ کو لگایا جائے
خون آنکھوں سے جو بہتا ہے وہ ہے دل کا مرے
کتنی ہجرت کی ہے دل سوز سزا دیکھایا جائے
صبح کی آنکھ سے نکلا ہے سمندر کیسے
میرے احساس پہ برسی جو گھٹا یا جائے
شمع جلتی ہے کسی اور کے غم میں لیکن
اس کے پہلو میں ہزاروں کو اٹھایا جائے
پھول خوشبو کے یہ چہرے پہ سجا لو وشمہ
مری آنکھوں کی تمنا کو ہے بھایا جائے