معدوم کرنے سے پہلے حال چرانے کی بات تھی
ہر کیفیت میں جیسے خیال چرانے کی بات تھی
وہ میرے گرد رہے تو بھی خوشبوءُ کی طرح مگر
زمانے کی ہواؤں میں وصال چرانے کی بات تھی
محبت نہیں ہے سوداگری کبھی تعین کیئے بغیر
تم نے لی انگڑائی وہ چال چرانے کی بات تھی
گردنواہ کی الجھنوں میں مردم آزار کون نکلا لیکن
تھوڑی بہت ہر جگہ استقلال چرانے کی بات تھی
یوں ہر سال ایک عطیہ اور ہر سال کچھ تعفے
دوستوں میں مجھ سے ایک سال چرانے کی بات تھی
وہ اپنا فرض قرض سمجھتے تھے سنتوشؔ پھر بھی
ہر کسی کے پاس احتمال چرانے کی بات تھی