تیرے خون کی لالی کچھ ایسا رنگ لاٰےّگی
دنیا تیرے نام کی ہر سو شمعیں جلاے گی
جب نام آے گا امن کا، علم و دانش کا
میرے وطن کی ھوا بھی تیرے گیت گاے گی
بھادری کا تیری یوں چرچہ ھونے والا ھے
جاھلان کی ھستی خود سے بھی شرماے گی
منہ تو پھلے بھی وہ چھپاے پھرتے ھیں
اب تو آنکھ بھی انھیں چھپانی پڑ جاے گی
ظلمت کا سحر توڈ دیا اک بہادر لڑکی نے
دیکھنا ہر بے زبان کو اب زبان مل جاے گی
سیدھ سا حساب نہ سمجھے کیسے طالبان ہو تم
ِضرب لگاتے جاوّ گے تو وہ ضرب ہوتی جاے گی
اٹھو میری بیٹی ! ابھی بہت پڑا ہے کام باقی
بوڈھی سوچ کے بتوں کو ملالہ ہی گراےٰ گی