عجیب شخص ہے مشکل میں ڈال دیتا ہے
کبھی خوشی کبھی رنج و ملال دیتا ہے
وفا کی بات اسے جب بھی سنائی دیتی ہے
وہ خاک مٹھی میں لے کر اچھال دیتا ہے
سمیٹ لیتا منافع ہے وہ محبت کا
خسارہ بس مرے کھاتے میں ڈال دیتا ہے
تمہاری یاد کا ہم نے دیا جلایا ہے
مرے وجود کو اب یہ اجال دیتا ہے
ہمارے سامنے بیٹھا ہے جب بھی محفل میں
تو گویا جسم سے وہ جاں نکال دیتا ہے
یہ سمندر نے بھی کیوں کرلی دشمنی مجھ سے
میں ڈوبتا ہوں وہ مجھ کو اچھال دیتا ہے
عجب ہی ڈھنگ رہا ہے تری سخاوت کا
تُو ارشیؔ نیکی بھی دریا میں ڈال دیتا ہے