ہر ایک بات ذہن میں بسا کے دیکھتے ہیں ہم
ملا تھا ایک ہم سفر نیا کے دیکھتے ہیں ہم
بدل رہا ہے سوز میں جو قہقہہ لگا ہوا
چلے چلو کہ منزلوں ملا کے دیکھتے ہیں ہم
کہانیوں کا روپ دے کے ہم جنہیں سنا سکیں
ہماری زندگی میں ایسے آ کے دیکھتے ہیں ہم
ہماری ساعتوں کے حصہ دار اور لوگ ہیں
ہمارے سامنے نظر ہٹا کے دیکھتے ہیں ہم
کسی کے نام آگیا تھا یونہی درمیان میں
اب اس کا ذکر کیا کریں خدا کے دیکھتے ہیں ہم
بغاوتوں نے توڑ دیں کئی روایتیں مگر
دلوں کے بیچ سلسلہ جڑا کے دیکھتے ہیں ہم
غزل فضا بھی ڈھونڈتی ہے اپنے خاص رنگ کی
ہمارا مسئلہ فقط اٹھا کے دیکھتے ہیں ہم