ملکِ پرستان کی نہیں مگر تھی خوبرو حسینہ
حوروں کی ، حسیناؤں کی وہ تھی آرزو حسینہ
دل جوان والے جب کبھی بیٹھتے ہیں مل کے
فلسفہ وہی ، ذکر وہی اور تھی گفتگو حسینہ
قیس کی لیلیٰ ، رانجھے کی ہیر سے بڑھ کے
وہ ملکہ حُسن ہر دل کی جستجو حسینہ
کوئی مہتاب ، کوئی گلاب ، کوئی شباب کہتا ہے
کسی کی پَری اور جان و ڈھڑکن کسو حسینہ
فرشتوں سا کومل بدن وہ چشمِ طلسم
بھیگی زلف کی ہائے ہائے صندلِ خوشبو حسینہ
جب پوچھتی وہ نظاروں سے حسین کون ہے ؟
صدائیں اُٹھتی ایک ساتھ تُو ، تُو ، تُو حسینہ
دل نہال میں کومل پَری بن کے سمائی وہ
ماہرِ شاعری کی لاجواب غزل کے ہوباہو حسینہ