یہ رنج و الم انعام ہیں ، میرے عشق کا میرے پیار کا
ملے زخم پے اگر زخم بھی ، ہاتھ چھوڑوں نہ کبھی یار کا
آئے دوریاں ، مجبوریاں آئے بے بسی کے چاہے قافلے
میری زندگی کا ہر راستہ ، لاکھ عذابوں سے چاہے جا ملے
گُلِ عشق نہ مڑجھانے دُوں ، سہوں ہر ستم ہر خاڑ کا
ملے زخم پے اگر زخم بھی ، ہاتھ چھوڑوں نہ کبھی یار کا
کیسے کہہ دیا یہ آپ نے ، چلے جاؤ تُم مجھے چھوڑ دو
شک کر کے میری وفاؤں پے ، کہا کیوں ہر ناطع توڑ دو
کیسے جیوؤنگی میں سوچا ہے یہ ، نشہ مجھے ہے ترے دیدار کا
ملے زخم پے اگر زخم بھی ، ہاتھ چھوڑوں نہ کبھی یار کا
نہالؔ جی میں انسان ہوں ، مانا کہ میں ڈر سکتی ہوں
مگر تری محبت کے واسطے ، جی سکتی ہوں مر سکتی ہوں
میرا نصیب ملے خوشی یا غم ، دھاگہ توڑوں نہ میں اعتبار کا
ملے زخم پے اگر زخم بھی ، ہاتھ چھوڑوں نہ کبھی یار کا