منزل کے کھوج میں اکثر راہیں بدلتی رہیں
بھٹکے ہوئے مسافروں کی نوائیں بدلتی رہیں
رشتے کے باوجود مجھے لا تعلق ٹھرایا گیا
وقت کے ساتھ ساتھ میری سزائیں بدلتی رہیں
طلب کے ساتھ وفا کا مفہوم بدل دیا گیا
اس دور میں محبت کی اصطلاحیں بدلتی رہیں
کبھی پھولوں سے سج گئے کبھی پتے بھی چھٹ گئے
موسم کے ساتھ پیڑوں کی ردائیں بدلتی رہیں
عمر کے ساتھ ساتھ سوچ بھی پختہ ہوتی گئی
عثمان فیصلے بدلتے رہے، انائیں بدلتی رہیں
ہر قدم پہ مجھ کو مشکلات کا سامنا رہا
مجبوریوں کے تحت میری دعائیں بدلتی رہیں