موسمِ گلُ نے پہن لی ہیں قبائیں کیا کیا
خوشبوئیں لائی ہیں ساتھ اپنے ہوائیں کیا کیا
وقت اچھا یا برُا، جیسا تھا، بس بیت گیا
ہم پہ جو گذری ہے دنیا کو سنائیں کیا کیا
کبھی چاہت، کبھی نفرت، کبھی چھلکا سا نشہ
ہم نے دیکھیں تری آنکھوں میں فضائیں کیا کیا
لوٹ آنے کا ہی کہنا نہ ہمیں یاد رہا
وقتِ ُخصت اُنھیں دے ڈالیں دعائیں کیا کیا
اپنا سکھ چین ، سبھی خواب ترے نام کئے
اب ترے پیار میں ہم اور لٹائیں کیا کیا
جب کبھی کھولے ہیں یادوں کے دریچے ہم نے
ذہن میں گونجی ہیں پھر تلخ صدائیں کیا کیا
ایک دوجے کی ہمیں شکل تلک یاد نہیں
اوراب نگ دکھاِئیں گی نائیں کیا کیا
جِن کے بارے میں گماں تک بھی نہیں تھا عذراؔ
وقت نے ہم کودکھائی ہیں ادائیں کیا کیا