موسم کے آئینے میں ،میں صورت خزاں کی ہوں
میں سوچتی ہوں ہر گھڑی مٹی کہاں کی ہوں
رستے کی تیز دھوپ میں بگڑا نہ کچھ کبھی
تخلیق کائنات میں وہم و گماں کی ہوں
سمجھا نہیں یقین سے مجھ کو زمین زاد
میں جا رہی ہوں میں تو پری آسماں کی ہوں
اب وقت روند ڈالے گا میرے وجود کو
اک داستان میں بھی کسی کارواں کی ہوں
مقتل میں لے چلا ہے مقدر تو کیا ہوا
احسان مند پھر بھی کسی مہرباں کی ہوں
شکوہ نہیں ہے کاروانِ اہلِ شوق سے
دشمن بھی آپ میں تو یہاں اپنی جاں کی ہوں
میں عشق کے حجاب سے نکلی نہیں کبھی
لیکن میں لوٹ جاؤں گی وشمہ جہاں کی ہوں