ميں جسے ديکھنا چاہوں وہ نظر نہ آسکے
ہائے ان آنکھوں پہ کيوں تہمت بينائی ہے
ملوں گا خاک ميں اک روز بيج کی مانند
فنا پکار رہی ہے مجھے بقا کيلیے
اور ارض و سما تجھ ميں دل بن کے دھڑکتے ہيں
کچھ يونہی نہيں ہم کو آداب غزل آئے
يوں بھی کچھ دن کيلیے دور رہا ہوں تجھ سے
ليکن اس بار سفر کی يہ تھکن اور ہی ہے
کچھ دير رو بھی لے طبعيت بحال ہو
کيا سوچنے سے فائدہ کيوں سوچتا ہے پھر
ذرا سی بات تھی بات آگئی جدائی تک
ہنسی نے چھوڑ ديا لا کے جگ ہنسائی تک
بھلے سے اب کوئی تيری بھلائی گنوائے
کہ ميں نے چاہا تھا تجھ کو تيری برائی تک
پھر کوئی آئے جسے ٹوٹ کے چاہا جائے
ہميں ايک عمر ہوئی ہے کف افسوس ملے
خدا نہيں ہے تو کيا ہے ہمارے سينوں ميں
وہ اک کھٹک سی جسے ہم ضمير کہتے ہيں