مُجھ سے کہتا ہے کبھی دِل مِیں مَلال آتے ہیں
کیسے کیسے میرے دُشمن کو سوال آتے ہیں
یہ جو ہم روتے ہیں راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر
رَفتہ رَفتہ تُجھے آنکھوں سے نکال لاتے ہیں
اب تو سانسوں کے اُکھڑ جانے کے دِن ہیں ہمارے
ایسے موسم مِیں کہاں جاہ و جلال آتے ہیں
پُھول کِھل جائیں تو اُس شخص سے کم کم مِلنا
ایسے موسم مِیں محبت پہ زوال آتے ہیں