مڑ کر جو دیکھتا ہے محبت اسے بھی ہے
لگتا ہے آج میری ضرورت اسے بھی ہے
چہرہ حسین بھول نہیں سکتا میں کبھی
میں سوجتا ہوں پیار میں شدت اسے بھی ہے
وہ پہلے والا نور نزاکت چمک دمک
وہ دیکھ بھال حسن کی عادت اسے بھی ہے
انکار ہو گیا تھا ارادہ نہ ایسا تھا
وعدہ وفا نبھانے کی حسرت اسے بھی ہے
لے کوئی انتقام رہا ہے نہ جانے کیوں
میری طرح زمانے سے نفرت اسے بھی ہے
وہ جان سب چکا ہے نہیں ہوں میں بے وفا
بچھتا رہا ہے آح ندامت اسے بھی ہے
رہتا ہے دور مجھ سے وہ آتا نہیں قریب
مجھ سے کوئی نہ کوئی شکایت اسے بھی ہے
مشکل سے وہ ملا تھا تگ و دو بہت کی تھی
شہزاد یاد پیار کی قمیت اسے بھی ہے