درختوں پر جو پنچھی سر میں گاتی ہے
ہمیشہ آپ کی یہ یاد لاتی ہے
میں کھڑکی سے اسے دیکھوں درختوں پر
نظر کے سامنے پھر اک تیری تصویر آتی ہے
دیواروں پر تیرا چہرہ، کتابوں میں بھی تیرا عکس
جدھر جاؤں ہر اک در سے تیری آواز آتی ہے
ہمیں کیا ہم اسے چپ چاپ سہتے ہیں
مگر آنکھیں ہیں جو سب کو بتاتی ہیں
اے زاہد سوچ لو اک بار ان آنکھوں کے بارے میں
تیرے دل کی حقیقت سامنے ہر بار لاتی ہیں