اب تو ربط بڑھانے سے ڈرتا ہوں
کسی کو اپنا بنانے سے ڈرتا ہوں
ہیں ارماں بہت میرے دل میں بھی
مگر تیرے کھو جانے سے ڈرتا ہوں
کہوں میں بھی اپنا حالِ دل دوست
مگر تیرے شرمانے سے ڈرتا ہوں
حُسن کے تیرے اعتراف تو کر لوں
مگر تیرے اِترانے سے ڈرتا ہوں
قصیدے تیری کمر کے تُجھے سُناوں
مگر تیرے بل کھانے سے ڈرتا ہوں
مرے ہے تُو بھی سجوؔ پہ، ہے علم مجھے
مگر تیرے ایسے مر جانے سے ڈرتا ہوں