مہر و وفا میں جان بھی قربان کر گئے
عاقل سے ہو سکے نہ جو نادان کر گئے
پرویوں سی ناز لے کے مرے گھر وہ آئے تھے
اک خطہ زمیں کو پرستان کر گئے
مہمان بن کے دو لمحوں کے واسطے
یادوں کو اپنی مستقل مہمان کر گئے
جاتے ہوئے نگاہ جو محفل پہ کر گئے
مہنگی سے مہنگی مے کو بھی ارزان کر گئے
جینے کی وجہ ڈھونڈ رہا تھا یہ دل مرا
مشکل وہ آ کے یہ مری آسان کر گئے
کل شب کو بن سنور کے وہ آئے تھے خواب میں
کافر کے دل کو قائلِ حوران کر گئے
نہ حسن اور زن سے کبھی دشمنی کرو
یوسف کو دونوں داخلِ زندان کر گئے
پردہ اٹھا دیا جو سرِ بزم آپ نے
حوروں سمیت منفعل غلمان کر گئے
یہ حسن اور عشق جو باہم ہوئے کبھی
غالبؔ کے آدمی کو بھی انسان کر گئے