کس کی آنکھ نشیلی ہے
کس کے ہونٹ رسیلے ہیں
میری نگاہِ شوق میں
کوئی چہرہ جچے تب ناں
کوئی کتنا افسردہ ہے
کس کا غم کہاں تک ہے
خود کے درد سے فرصت ہو
کوئی آنسو بچے تب ناں
جو میری آہ کہلائے
جو آخری ہچکی بن جائے
میری جاناں تیرے ہاتھوں پہ
وہ مہندی رچے تب ناں