کچھ دور تک تو اُس کی صدا لے گئی مجھے
پھر موج میرے من کی اُڑا لے گئی مجھے
پہرا لگا ہی رہ گیا اُلفت میں ہجر کا
آنچل میں یادِ یار چھپا لے گئی مجھے
منزل ہی تھی نظر میں نہ رستے کا ہوش تھا
اُس در تلک یہ کس کی دعا لے گئی مجھے
کس میں تھا حوصلہ کہ گزارے مگر، حیات
باتوں میں اپنے ساتھ لگا لے گئی مجھے
دل میں کھلا تھا پیار کسی پھول کی طرح
مہکا جو میں، تو ایک ہوا لے گئی مجھے