میرادل بس خدا سے دعا یہ کرے
Poet: امن وسیم By: امن وسیم, ملتانمیرادل بس خدا سے دعا یہ کرے
کوئی تم کو کبھی رسوا نہ کرے
نہ بھٹکے تیرے پاس کوئی بھی غم
کوئی خوشیاں بھی تجھ سے جدا نہ کرے
چاند تارے تیرے رہگزر جب بنیں
پھول کلیاں تیرے سر پہ چادر تنیں
حسن تیرے پہ آئے کبھی نہ زوال
تو سارے جہاں میں رہے بے مثال
تیری خوشیوں کا سورج کبھی نہ ڈھلے
شوخ و چنچل رہے تو یونہی عمر بھر
سدا بہار گلستاں میں ہو تیرا گھر
تیری معصومیت ہو یا چالاکیاں
تیرا شرمیلا پن ہو یا بے باکیاں
تیرے ہر روپ میں اک الگ پن ملے
تیرا شیریں دہن اور سنہرا بدن
تو رہے تا قیامت بس رنگ چمن
رات کو جب بھی خوابوں کی جانب چلے
چاند سنگ سنگ محافظ کی مانند چلے
غم کا سایا بھی تجھ پہ کبھی نہ پڑے
تیری باتوں کی ہو ہر طرف باز گشت
گلستاں ہو کوئی چاہے ہو کوئی دشت
نور چہرے پہ تیرے سلامت رہے
تیری شوخی ہی تیری علامت رہے
تجھے کچھ ہو کبھی یہ خدا نہ کرے
کوئی تجھ کو ہر پل چاھنے والا ملے
نہ ہی شکوے کرے نہ کرے وہ گلے
پھول بن کر تو اس کے صحن میں کھلے
وہ نچھاور کرے پیار کے سلسلے
تمہیں کسی موڑ پر بھی خفا نہ کرے
میرا دل بس خدا سے دعا یہ کرے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






