میرا تو نام ہے تیرا بھی کہیں نام نہ ہوجائے
میری طرح تو بھی کہیں بدنام نہ ہو جائے
تم سے ملنا چاہتے ہیں پر ملنے سے کتراتے ہیں
کہیں میرے ساتھ تیرا شہرہ بھی عام نہ ہو جائے
یہ سوچ کے غیروں سے بھی باتیں کرتے ہیں
بدنام کہیں تیرا بھی نام نہ ہو جائے
میرے دل میں کیا ہے میری آنکھوں سے پہچان کر
دنیا والوں میں تیرا چرچہ بھی عام نہ ہو جائے
اپنے دل کی بات زباں پر لانے سے یوں ڈرتے ہیں
حال دل کہہ دینے سے یہ قصہ بےنام نہ ہو جائے
عظمٰی دل کی باتیں کہنے والے دل کو کھٹکا ہے
دل کے ہاتھوں ہی اس دل کا کام تمام نہ ہو جائے