گرانیءِ گردشِ ماہ و سال آ کے دیکھ
تیرے بعد کیسا ہے میرا حال آ کے دیکھ
وہ چہرہ جسے چاند سا کہتا تھا کبھی تُو
بدلے ہوئے اُس کے خد و خال آ کے دیکھ
رکھتا تھا جو تاثیر مسیحائی کی وہ عشق
بن گیاکسی کی جان کا وبال آکے دیکھ
رہتا تھا جسے تلخ لمحوں میں تیرا ساتھ میسر
اب کوئی نہیں اسکا پرسانِ حال آکے دیکھ
دیکھے تھے وفاوءں کے خواب جن آنکھوں نے
ان پر منقش ہیں جو، اب وہ سوال آ کے دیکھ
عشق میں پائے تھے خوشیوں کے خزانے جس نے
اس کے ہونٹوں پے مسکراہٹ کا زوال آکے دیکھ
حاصل تھا جس کو ملکہ شعر و غزل پہ عامر
بکھرے ہوئے اب اُس کے افکار و خیال آکے دیکھے