میرا شوخ نین کوئی حرکت کر بیٹھا
دل کا وجدان نئی قدرت کر بیٹھا
پہلے سکون میں کوئی انتشار بھی نہ تھا
پھر کیوں میں ایسی غفلت کر بیٹھا
جاتے تو کہیں سے پوچھ بھی لیتے
کیا حاجت تھی کہ عجلت کر بیٹھا
اب کوہ گراں خیالوں سے اتروں بھی کیسے
خاک پہ رہتی خلش کو پربت کر بیٹھا
گردش طبیعت سے مزاج بدلتے رہے ہیں
نہ بدلا وہ جو اپنی جبلت کر بیٹھا
جب تجھے اپنی چاہت کہا سنتوشؔ
یہ جہاں مجھ سے نفرت کر بیٹھا