بات معیوب بھی ہے اور بہت خوب بھی ہے
میرا محبوب کسی اور کا محبوب بھی ہے
حوصلہ جینے کا دیتا ہے تصور تیرا
اور ویرانئہ دل تجھ سے ہی منسوب بھی ہے
کیسے امید ر کھیں اس سے مسیحائی کی
ہر اذیئت ہمیں دینا جسے مر غوب بھی ہے
اس لئے دب کے رہیں دل میں انائیں میری
جذبئہ عشق ترے حسن سے مغلوب بھی ہے
نور ایماں ہو تو کھل جاتی ہیں پرتیں ساری
ذات پاک اس کی عیاں بھی ، ذرا محجوب بھی ہے
صبر کا پیالہ مرا اس لئے چھلکا نہ کبھی
ذہن میں کیفیت حضرت ایوب ء بھی ہے
مت گرا ساقیا معیار مری رندی کا
جام کو ثر سا سنا ہے کوئی مشروب بھی ہے
کیسے ممکن ہے زوال اپنی محبت کا ‘حسن“
میرا طالب بھی ہے وہ ، اور مرا مطلوب بھی ہے