سوچتا ہوں کہ اس کا مجھ سے کیا ناطہ ہے
جو آنکھوں سے دور ہو کر بھی مجھے لبھاتا ہے
اس کا انداز اور لوگوں سے بڑا منفرد ہے
وہ اپنی ہر بات نظموں کی زبانی سناتا ہے
میں تو اسے دن میں کئی بار یاد کرتا ہوں
مگر اس کا نہ فون نہ کوئی خط آتا ہے
کیا کیا ارمان دنیا میں لے کر آتے ہیں سبھی
مگر ہر انسان قسمت کے آگے ہار جاتا ہے
کاش کوئی میرے کنول جیسے یار سے کہہ دے
کہ اصغر اسے دل ہی دل میں کتنا چاہتا ہے