نہ دنیا کی چاہت
نہ خواہش کی آہٹ
نہ حسرت کا کھٹکا
نہ شورِ زمانہ
نہ سائل ہَوا
کوئی بھی یہاں آتا جاتا نہیں
بڑا پُرسکوں ہے یہ دُنیا کا خطہ
ہیاں پر سناٹوں کی محفل سجی ہے
یہاں سوچ ہی مثلِ عالم بنی ہے
تسور میں وہ ہے جو دِکھتا نہیں
جِسے تھامنے والا گرتا نہیں
یہاں غیر کرتا نہیں چاک بینی
یہاں رقص کرتی ہے گوشہ نشینی
سو
میرے حال کا فی الحال
خُلاصہ ہے یہی
دلِ فراق کا پُر زور
تقاضہ ہے یہی
بس اِسی حال میں گُزر جاوں
تمام عُمر
اِس کمرے کے نام کر جاوں
میرا کمرہ ۔۔